- Subscribe to PCF Networked Blog Daily Updates
- Subscribe to our Twitter / Google / Yahoo Daily Updates
یپلز پارٹی کی بے تکلف خاتون ایم این اے فوزیہ وہاب نے کہا کہ حضرت عمرؓ کے
زمانے میں آئین نہ تھا یعنی ہمارے زمانے میں آئین ہے وہ حضرت عمرؓ کے دور
حکومت کا موازانہ موجودہ حکومت سے کرنا چاہتی ہیں تو صدر زرداری سے پوچھ
لیں۔ حضرت عمرؓ کے مثالی دور کی باتیں سب دنیا والے جانتے ہیں فوزیہ وہاب
کو ہماری باتوں پر یقین نہیں تو انگلستان کے تاریخ ساز وزیراعظم چرچل کی
بات پر یقین کر لیں۔
”اگر عمرؓ کو دس سال مزید مل جاتے تو ساری دنیا کا دین اسلام ہوتا“
پولیس حضرت عمرؓ نے بنائی جس کی بدترین شکل ہمارے دور میں
موجود ہے۔ ان کے دور میں اتنی فتوحات ہوئیں کہ بڑے بڑے فاتحین دم بخود ہیں۔
ہم نے آدھا ملک گنوا دیا بلکہ لٹا دیا بھٹو چاہتے تو مشرقی پاکستان کو بچا
لیتے۔ یہ جملہ انہی حضرت عمر فاروقؓ کا ہے کہ اگر فرات کے کنارے کوئی کتا
بھی بھوک سے مر جائے تو اس کی ذمہ داری مجھ پر عائد ہوگی۔ تب زکوٰة دینے
والے تھے۔ لینے والا کوئی نہ ہوگا۔ آجکل کے حکمران ان کے سامنے شرمندہ ہونے
کے قابل بھی نہیں۔ روٹی، کپڑا، مکان کے نعرے کے وعدے کو اپنے لئے اعزاز
بنانے والی پارٹی کے چوتھے دور میں بھی لوگ روٹی، کپڑا، مکان کو ترس گئے
ہیں۔ کتوں سے بدتر حالت میں ہیں۔ لاکھوں لوگ غربت کی لکیر کے نیچے زندگی
گزارنے پر مجبور ہیں۔ زندگی شرمندگی بن گئی ہے اس کے باوجود حکمران ان کے
ساتھ درندگی کئے جا رہے ہیں۔
قرآن سے بڑا آئین کیا ہوگا۔ ہمارے آئین میں
لکھا ہے کہ کوئی قانون قرآن و سنت کے خلاف نہیں ہوگا مگر آج سب کچھ قرآن و
سنت کیخلاف ہورہا ہے۔ میں مولوی نہیں ہوں مگر اسلام اور قرآن کے مذاق میں
بولنے والوں کیخلاف ہوں۔ فوزیہ وہاب اپنی پارٹی کی دوسری عورتوں جیسی نہیں،
شرمیلا فاروقی اور فرزانہ راجہ جیسی عورتوں نے پارٹی کو مزید بدنام کردیا
ہے۔ عمرؓ کے زمانے میں ”آئین“ نہ تھا مگر قانون اور اصول کی مکمل پاسداری
کی جاتی تھی۔ آج آئین ہے اور حکمران، سیاستدان اور انکے مفادپرست خوشامدی
غیرآئینی، غیرقانونی، غیراخلاقی اور غیرسیاسی سرگرمیوں میں بری طرح مبتلا
ہیں جو بھی کام کرتے ہیں وہ غیرآئینی ہوتا ہے اور کہتے ہیں کہ یہ آئین کے
مطابق ہے۔ وہ اپنے ناجائز کام جائز کام ثابت کرنے کیلئے آئین کا سہارا لیتے
ہیں بلکہ آئین کو بدل دیتے ہیں۔ آئین میں اٹھارہ ترمیمیں ہوچکی ہیں، یہ
تقریباً پہلے سے مختلف آئین ہے۔ ہمارے آئین کو کئی بار توڑا گیا جیسے آئینہ
توڑا جاتا ہے۔ پھر ہر کرچی آئینہ بن جاتی ہے، تو یہ کرچیاں مخالفوں کی
آنکھوں میں ڈال دی جاتی ہیں۔ آئین توڑنے میں جرنیلوں کے ساتھ سیاستدان
برابر کے شریک ہیں۔ دونوں نے آئین کی حفاظت کی قسم کھا رکھی ہوتی ہے۔
قرآن
کے ساتھ بھی یہی سلوک ہورہا ہے۔ قرآن ایک ہے مگر کئی فرقے ہیں۔ قرآن کی
اپنی مرضی سے تشریح ہمارے علمائے کرام کا شیوہ ہے۔ علماءبھی سیاستدان بن
گئے ہیں۔ قرآن اور آئین کے ساتھ ایک جیسا سلوک کیا جا رہا ہے۔ علامہ اقبالؒ
نے فرمایا تھا
خود بدلتے نہیں قرآں کو بدل دیتے ہیں
ہمارے نزدیک
سیاست، حکومت، انقلاب اور زندگی کی اپنی اپنی مرضی کی آراءاور خیالات ہیں۔
خیالات ٹھیک ہوں گے تو حالات بھی ٹھیک ہوں گے۔ ہماری نیتیں ٹھیک نہیں ہیں۔
قانون کی خلاف ورزی کو افتخار بنالیا گیا ہے۔ ہمارے ہاں کئی قسم کے قانون
ہیں۔ سب اپنی اپنی توفیق اور مرضی کے مطابق قانون کو استعمال کرتے ہیں بلکہ
قانون کا استحصال کرتے ہیں۔ قانون صرف غریب اور کمزور کیلئے ہے۔ قانون
ظالم کی لاٹھی ہے، لوگوں کو مظلوم بنانے کا ہتھیار ہے۔ یہ قانون نافذ
کرنیوالے ادارے قانون توڑنے میں سب سے آگے ہیں۔ کوئی کسی کو پوچھنے والا
نہیں۔ اعلیٰ عدالتوں کا مذاق اڑایا جاتا ہے اور نچلی عدالتوں میں کرپشن کا
بازار گرم ہے۔ انصاف تو بہت دور کی بات ہے، فیصلے قانون کے مطابق نہیں
ہوتے۔ ان فیصلوں سے صرف دلوں کے درمیان فاصلے بڑھتے ہیں۔ تھانے اور کچہریاں
شکارگاہ کا روپ دھار چکے ہیں۔ عدالت اور حکومت بلکہ عدالت اور سیاست کو
مدمقابل کھڑا کردیا گیا ہے۔ اختیارات کی جنگ ہے، بے اختیار لوگ اور بھی بے
اختیار ہوگئے ہیں۔ ان سے بے اختیاری کی سرمستی بھی چھین لی گئی ہے۔
افغان
وزیر ریلوے سے پوچھا گیا کہ افغانستان میں تو ریلوے ہے ہی نہیں۔ افغان
وزیر ریلوے بولا تو پھر تم کہو گے کہ افغانستان میں افغانوں کی حکومت ہی
نہیں ہے مگر حکومت تو پاکستان میں بھی پاکستانیوں کی نہیں، پھر کچھ لوگ
حکمران کیوں بنے پھرتے ہیں۔ تمہارے ہاں وزیر قانون ہے مگر کہیں قانون کی
عملداری نہیں۔ شکر ہے اس نے پاکستان کی موجودہ ریلوے کا ذکر نہیں کیا۔
ریلوے کا جو حال ہے وہ سب کو معلوم ہے۔ اب تو وزیر ریلوے بلور صاحب بھی
منافقت سے یعنی سیاسی طور پر شرمندہ ہونے کی اداکاری کررہا ہے۔ انکا حال
واپڈا، پی آئی اے، سٹیل ملز اور گیس وغیرہ سے اتنا زیادہ برا تو نہیں۔ اب
تو یہ گیت بھی لوگوں کو بھول گئے ہیں ”گڈی کوک مریندی اے“ اب کوک ہوک بن
گئی ہے۔
یہ بات بھی فوزیہ وہاب کو کیسے سمجھ آئیگی کہ اسلام ایک مکمل
ضابطہ حیات ہے۔ آج کل مسلمانوں کا جو حشر نشر ہورہا ہے جو توہین اور تذلیل
ہورہی ہے، غیرمسلموں کو تو یقین آجائیگا، مسلمانوں کو نہیں آئیگا۔ حیرت ہے
کہ ہم اپنے اکابرین کیلئے اتنی لاپرواہی سے جھوٹی باتیں کیوں کرتے ہیں۔ کیا
کبھی بھارت میں کسی نے مسٹر گاندھی کے بارے میں ایسی ویسی بات کی ہے جبکہ
اسے ایک ہندو نے قتل کردیا تھا۔ مسلمانوں کی منافقانہ حمایت پر ایک ہندو
غصے سے پاگل ہوگیا تھا۔
نام نہاد آزاد یورپی اور امریکی معاشرے میں کوئی
اپنے بزرگوں کیلئے اپنے مفاد کی خاطر بات نہیں کرتا۔ ہمارے پاکستانی نام
نہاد لبرل قائداعظمؒ پر تنقید کرتے ہیں۔ اب حضرت عمرؓ پر تنقید کرنے لگے
ہیں۔ ہمارے یہ لوگ ہندوﺅں کے اکابرین پر تنقید نہیں کرتے۔ ہم اپنی عدالت
اپنی فوج پر بیجا تنقید کرتے ہیں۔ وہ جو فوج کے پروردہ ہیں، وہ فوج کے
زیادہ خلاف ہیں۔ نجانے اس سے لوگ کیا ثابت کرنا چاہتے ہیں۔ ہم اتنے کنفیوژ
کیوں ہیں۔ خدا کی قسم عمرؓ کا نظامِ حکومت ہمارے جمہوری نظام سے کروڑ درجے
بہتر تھا۔ آخر میں عظیم جمہوری حکمران، منتظم اور انسانیت کے خادم عمرؓ کی
ایک بات عرض ہے: ”جب لوگ اللہ سے اپنی کسی حاجت کیلئے دعا مانگتے ہیں تو
مجھے لگتا ہے کہ وہ میری شکایت کررہے ہیں“ آج کل تو لوگ صرف بددعائیں
مانگتے ہیں اور وہ بھی قبول نہیں ہوتیں۔ شکایتیں اور بددعائیں ہم رنگ اور
ہم معنی ہوگئی ہیں۔
ڈاکٹر محمد اجمل نیازی نوائے وقت
Xharaf Vsm
Pakistan Cyber Force