Top links

Thursday, December 16, 2010

!جاگو! اس سے پہلے کہ دیر ہو جائے

Read on Pakistan Cyber Force Facebook Page

یہ کہانی میں نے اپنے ایک قریبی  دوست سے دو سال پہلے سنی تھی آج وہ وقت آگیاہے کہ آپ سے شئیر کر رہاہوں

ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ کسی ریاست پر ایک نیا بادشاہ حکومت سمبھالتاہےجسکی عوام پہلےہی بہت خوشحال تھی اوروہاں ہر چیز کی فراوانی  تھی اور اسی وجہ سے عوام کسی کی خوشامدومنت سماجت نہیں کرتی تھی۔

آخرکار ایک دن بادشاہ کو عوام سےاپنی خوشامدومنت سماجت  کروانے   کی تمنا محسوس ہوہی گئی چنانچہ اس نے اپنے وزراء سے اس سلسلے میں مشورہ طلب کیا۔ اسکے ایک وزیر نے مشورہ دیا کہ آپ روزمرہ استعمال کی چیزوں کی فراوانی کم کر دیں تو عوام خود بخود آپ کے پاس خوشامدو منت سماجت کے لیے آجائے گی ، تو بادشاہ نے اس مشورے کو پسند کرتے ہوئے اس پرعمل کرنے کا حکم دے دیا ۔کافی عرصہ گزر گیا مگر کوئی شخص اپنی التجالے کر  بادشاہ کے پاس نہیں  آیاچنانچہ بادشاہ نے وزراء سےکوئی اور مشورہ طلب کر لیاجس پر ایک اوروزیر نے مشورہ دیا کہ عوام روزانہ شہروں میں جاکر اپنا کاروبار کرتی ہے شہروں میںجانے کا صرف ایک ہی راستہ ہے آپ ان راستوں کےسپاہیوں کو اس بات کا حکم دے دیں ہر شخص شہر میں داخلے پر ایک جوتا کھائے گا تو شہر میں داخل ہو سکے گا ورنہ نہیں ، بادشاہ کو وزیر کا یہ مشورہ پسند آیا اور سپاہیوں کو اس بات کا حکم دے دیا ۔ اس حکم پر بھی کو ئی شخص دربار میں التجا لے کر نہیں آیا چنانچہ بادشاہ نے شہر میں داخلے پر دو(٢)جوتے مارنے کا حکم دے دیاپر پھربھی کوئی شخص دربار میں نہیں آیا۔بادشاہ اس بات پر بہت غصہ میں آگیا اور عوام کوشہر کے داخلے اورخروج دونوں پر چارچار جوتے مارنے کا حکم دے دیا۔آخر کار کچھ عرصے بعد  کچھ لوگ تنگ آکر بادشاہ کے دربار میں اپنی التجا لے  کر آہی گئے جنکو دیکھ کر بادشاہ بہت خوش ہوا اور بولا :بتاؤ کیا مسئلہ ہے

وہ لوگ بولے:بادشاہ سلامت ہمیں شہر میں داخلے اور خروج کے وقت بڑی بڑی قطاروں میں جوتے کھانے کے لیے کھڑا ہونا پڑتا ہے۔آپ سے ہماری التجا ہے کہ آپ جوتے مارنے والے سپاہیوں کی تعداد بڑھادیں تاکہ ہم جلدی فارغ ہو جائیں۔

اس التجا کو سن کربادشاہ اور اسکے وزراء حیرانی سے اُن کے منہ تکتےرہ گئے۔

 یہ تھی کہانی جس میں بادشاہ کی عوام   واقعتاً آج کے پاکستان کی اکثریت عوام اور نوجوانوں   کی ترجمانی کر تی ہےبے شک آپ میری اس بات سے اتفاق کریں گےحالات تو ہمیں ا یسے ہی نظر آرہے ہیں کیو نکہ  ہماری کثیر عوام صدر مملکت کے  گھر بیٹھ کر  جوتے پہ جوتے کھا رہی ہےاور  اس کہانی کےبادشاہ کوتو رہنے ہی دیں کیونکہ اس  بادشاہ کا تو ہمارے ان حکمرانوں سے دور دور تک کوئی مقابلہ کیا  ہی نہیں جا سکتا،ہمارے حکمرانوں کو اپنی عیش وعشرت سے فرصت ہی نہیں ملتی۔بے شک یہ نہایت حرام

خور حکمران ہیں  اس بات پر ہم سب تقریباًمتفق ہیں ۔مگر مجھےایک بات سمجھ میں نہیں آتی کہ اللہ کا عذاب (مثلاًمہنگائی ،غربت ،بے روزگاری،سیلاب،زلزلے وغیرہ وغیرہ)ہم عوام اور نوجوانوں پر ہی کیوں ہو رہا ہے جبکہ ہمارے حکمران توظاہراًعیش وعشرت کی زندگی گزار رہے ہیں۔ ایسا کیوں ہے یہ اس وجہ سے ہے کہ حدیث پاک میں آتاہےکہ جیسی عوام ویسے حکمران(حدیث نبوی)۔

 ہمارے حکمرانوں  کی طرح ہم میں سے بھی اکثریت واقعتاًایسی ہی غلام،لاعلم ،بےغیرت ،حڈحرام(آرام پسند)،خودغرض وخودفروش ،بےرحم ،لالچی اورعیاش ہو گئی ہے یا بنادی گئی ہے۔بھائی وہ کس طرح ؟وہ اس طرح کہ:۔

  • ہماری اکثریت آج کے نظام باطل سے  شعوراًاور غیرشعوراًمنسلک ہے اور اس نظام کےبہترین غلام بننے کے لیے اپنی زندگیاں گزاررہی ہے۔    *  ہماری اکثریت کواس نظام باطل کا علم ہی نہیں ہےکیونکہ یاتو اس کےعلم کو نہ حاصل کرنے کی انہوں نے ٹھان رکھی ہے( حضرت نوح علیہ سلام کی قوم کی طرح) یا پھربےغیرت ہےکہ ان کو اپنی تفریحات (انٹرٹیرمنٹس) سے فرصت نہیں ملتی چاہے ان کی ماں بہنیں اور بھائی مرتے رہیں(کشمیر،فلسطین، عراق، افغانستان وغیرہ میں)،یاپھر حڈحرام(آرام پسند)ہےکہ اس نام نہاد فضول علم کو حاصل کرنے میں اپنا قیمتی ٹائم کیوں ضائع کریں۔
  •  ہماری اکثریت خودغرض ہوگئی ہےیعنی صرف اپنے لیے ہی جیتی ہےاور اسی کی جدوجہد میں لگی رہتی ہےیعنی میری تعلیم،میری نوکری ، میرا کاروبار،میری فیملی(مزید یہ کہ میری قوم ،میرےلوگ)وغیرہ وغیرہ سب خیریت سے رہیں باقی سب جائیں بھاڑ میں۔ اوراسی کے لیے اپنی خودی(ضمیر) کو بیچتی ہے۔
  • ہماری اکثریت انسان ہونے کے تجربے سے یا تو ناواقف ہے یاپھر انہوں نے اپنی خواہشات یعنی دنیا کی محبت اور موت کے ڈر سے اپنی انسانیت کو ختم کر دیا ہے۔ یعنی انکے کو ئی جذبات اور احساسات دوسرے انسانوں کے لیے نہیں رہے بلکہ وہ پورے طریقے سے بے رحم ہو گئے ہیں۔جبکہ اﷲتعالیٰ نےانسان کی فطرت میں یہ جذبات و احساسات رکھیں ہیں۔
انسان اُس وقت تک انسان رہتا ہے جب تک اسے کسی دوسرے انسان کی تکلیف کااحساس ہوتاہے۔اور جب یہ احساس وجذبات انسان سے ختم ہو جاتےہیں تووہ جانوربن جاتاہے کیونکہ یہ احساس وجذبات جانوروں کی فطرت میں بہت کم ہوتے ہیں،بلکہ وہ انسان جانوروں سے بھی بدترین بن جاتا ہےکیونکہ اس دور میں اللہ تعالیٰ ایسے جانور پیدا کر رہا ہے جواس احساس وجذبات کو دوسرے جانوروں کے لیے بھی رکھتے ہیں ، یقیناًآپ نے وہ ویڈیو تودیکھی ہی ہو ں گی جس میں  ایک شیرنی بند کے بچے کی رکھوالی کر رہی ہوتی ہے اور ایک دریائی گھوڑا ہرن کے بچے کو مگرمچھ کے چُنگل سے نکالتا ہے وغیرہ وغیرہ۔

اللہ کے لیے انسان بن جاؤ!۔
کس طرح ؟ اسلام اوراسلامی تعلیمات کے ذریعے۔کیو نکہ اسلام کا بنیادی مقصد انسان کو انسان بنانا ہے۔
اللہ نےہماری عوام  میں سے کچھ کے حالات ووسائل  اتنےاچھے کردیےہیں کہ وہ یہ سمجھ بیٹھےہیں کہ یہ سب انکے اپنے ہاتھ کی کمائی ہےاوریہ سب ان کے پاس ہمیشہ رہیں گیں۔اس لیے وہ کچھ کرتے نہیں سوائےمزید جمع کرنے(لالچی)اورنام نہادجائز عش وعشرت اور چند عبادات کے۔

کیاآپ کوآج کی اس دنیا میں اللہ کی مخلوق  پر ہونے والے ظلم وستم نظر نہیں آتے؟

مومن تو وہ ہوتا ہے جومظلوموں کو پناہ دیتاہے گھر بیٹھےصرف تسبیح نہیں پڑتا۔مومن تو وہ ہوتا ہے جو جنگل میں بکری کے بچےکےپیاسا مرجانے پر اپنے آپ کو ذمہ دار سمجھتا ہے۔مومن تو وہ ہوتاہے جو مال ودولت اورامن وامان ہونے کے باو جود اس لیے عیش وعشرت نہیں کرتا کہ کہیں دل میں تکبر نہ پیدا ہو جائے،یاکسی غریب کے دل میں احساس کمتری اورمحرومی نہ آجائے۔

خبردار! اللہ یوم آخرت میں اپنی ہر نعمت کا حساب لے گا اور یہ حساب اُن لوگوں کے لیے بہت سخت ہوگاجن کو اللہ نے اس دنیا میں بہت کچھ دے رکھاہےاورمظلوم اورمغلوب ان  لوگوں کے گریبان پکڑلیں گے جو دنیامیں نام نہاد جائزعیاشی میں لگے ہوئے تھے،جبکے اُن پر ظلم ہو رہا تھا۔ سن لو! عیاشی و عیش و عشرت صرف اُس وقت جائز ہے جب ریاست میں ہر شخص کم از کم پیٹ بھرکے کھانا کھاتا ہو اور امن و امان ہو جائےجبکہ رسول اللہﷺ اور صحابہ رضی اللہ  نے توامن وامان اور خوشحالی ہو جانے کے باوجود  سادگی کی زندگی گزاری ۔

یہ اللہ کی اِس سنت کے مطابق ہوا کہ وہ کسی نعمت کو جو اس نے کسی قوم کو عطا کی ہو اس وقت تک نہیں بدلتا جب تک کہ وہ قوم خود اپنے طرزِ عمل کو نہیں بدل دیتی۔ اللہ سب کچھ سننے والا اور جاننے والا ہے۔(53)البقرة

خوب جان لو کہ یہ دنیا کی زندگی اِس کے سوا کچھ نہیں کہ ایک کھیل اور دل لگی اور ظاہری ٹیپ ٹاپ اور تمہارا آپس میں ایک دوسرے پر فخر جتانا اور مال و اولاد میں ایک دوسرے سے بڑھ جانے کی کوشش کرنا ہے۔اس کی مثال ایسی ہے جیسے ایک بارش ہوگئی تو اسے پیدا ہونے والی نباتات کو دیکھ کر کاشت کار خوش ہوگئے۔پھر وہی کھیتی پک جاتی ہے اور تم دیکھتے ہو کہ وہ زرد ہوگئی۔ پھر وہ بھس بن کر رہ جاتی ہے الحديد 20

تمہارے مال اور تمہاری اولاد تو ایک آزمائش ہیں، اور اللہ ہی ہے جس کے پاس بڑا اجر ہے۔(15)الحديد

These Ayats reference given me my fb friend Fizan Ahmed Thanks Fizan bro

یقیناًیہ باتیں سخت اور تنقیدی ہیں اُن لوگوں کے لیے جنکے لیےمیں نے بیان کیں ہیں سخت اور تنقیدی کیو ں نہ ہو پورا قرآن ان لوگوں کے لیے ایسی ہی سخت اور تنقیدی آیات سے بھرا پڑاہے اب ان بچاروں کا بھی کیا قصور کہ انہوں نے قرآن کو کبھی  اُٹھاکر تودیکھا نہیں سوائے رمضان میں اس جاہل واَن پڑھ شخص کی طرح جو دوسروں کو دیکھانے کے لیے اُلٹا اخبار پڑھتا ہے۔(مطلب قرآن پاک یا تو بغیر سمجھے پڑھتا ہے یا پھر دوسروں کو دیکھانےکے لیے پڑھتا ہے۔)۔

آج یہاں  تقریباً ہر کوئی مسلمان ہونےکے باوجود اس بات پر لڑ رہا ہے کون سے نظام میں ہماری فلاح ہے کیا آپ لوگ اُس رسول عرابی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بتائے ہوئےنظام حکومت کونہیں جانتے ؟تو پھر نظام کیوں ڈھونڈ رہے یقیناًآپ رسول اللہ سے محبت نہیں کرتے ،تبھی تو نظام ڈھونڈ رہے ہیں۔میں نے یہاں لفظ یقیناًاستعمال کیا ہے ۔اسکی وجہ یہ ہے کہ پاکستان کو بنے ہو ئے ٦٣ سال کا عرصہ گزر چکا ہےجبکہ ہمارے آباؤاجدادنے یہ پاکستان لاالہ الااللہ پر  حاصل کیا تھا تاکہ ہم بلاخوف اس میں محمدرسول اللہﷺکے دین کی تکمیل کر سکیں۔اور محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دین کی تکمیل صرف اسی وقت ہو سکتی ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) کانظام حکومت دوبارہ سے قائم ہو جائے۔

وہ نظام حکومت جس سے صحابہ(ر) نےحکومتیں قائم کیں،وہ نظام حکومت جس کو کفاردین اسلام(زائنسٹ ) نےہم سے چھین کرمن مطابق اورشیطانی طرزکا ردوبدل کرکےآج اس دنیا میں تقریباً قائم کر چکے ہیں۔وہ کفار دین اسلام(زائنسٹ ) اللہ کے دین  کواتناقریب سے جانتے ہیں کہ بدقسمتی سے آج کاتقریباًہر مسلمان بھی اتنانہیں  جانتایا جاننے کی کوشش کرتایا کوشش کرپاتا ہےکیونکہ وہ تو ان شیاطین کے اُن جالوں (فرقہ واریت،شخصیت پسندی،خودپسندی (اناوتکبر)وغیرہ وغیرہ)میں ہی اتنا پھنس جاتا کہ ان سے نکلتے نکلتےہی اُس کی عمُر بیت جا تی ہے۔

آخروہ کفار دین اسلام(زائنسٹ ) اللہ کے دین کو اتنا کیوں جانتے ہیں ؟ کیونکہ وہ شیطان کی باقاعدہ پرستش کرتے ہیں اور شیطان کا نظام اللہ کے دین اسلام ونظام کے برعکس چلتا ہےاور  اللہ کے دین اسلام اورنظام کو سمجھے بغیر وہ  اسکے برعکس کیسے چل سکتے ہیں مطلب وہ شیاطین اس کام کو کرنے کی ترغیب دیتے ہیں یا کرتے ہیں جسکےکرنےسے اللہ نے انسانوں کومنع فرمایا ہےاوراس کام سے رُکنے کی ترغیب دیتے ہیں رُکتے ہیں  جسکےکو کرنے کی اللہ نے تلقین کی ہے۔

کفاردین اسلام نےاپنا نظام حکومت اس دنیا میں قائم کرنے کی ابتداء   دنیا کو رنگ ونسل اور زبان وقبیلےکی بنیاد پر ملکوں و ریاستوں میں تقسیم کر کے کی پھرانہوں نے ایک نظام بنایاجسکو  جمہوریت  کانام دیا تاکہ آسانی سےان تمام ملکوں وریاستوں میں رائج کیا جاسکےاور وہ اس میں تقریباً کامیاب ہوگئے ،درحقیقت انکا یہ نظام جمہوریت صرف نام  کی جمہوریت ہےجس میں صدرمملکت کے تقرر کے لیے لوگوں کو گنا جاتا ہےتولہ نہیں جاتا مطلب اسمیں ایک اَن پڑھ جاہل اورایک ڈاکٹر برابرہوتےہیں یعنی ان دونوں کا ووٹ ایک ہی مانا جاتا ہے۔

اس کےبرعکس

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا نظام حکومت خلافت ہےبےشک اسی میں ہماری فلاح ہے شک صرف انہیں کو ہو سکتا ہے جونام نہاد جمہوریت کو جمہوریت سمجھ بیٹھے ہیں یا جن کے اپنے ذاتی مفادات ہیں یا پھر جو انگریز کے بوئے ہوئےبیچ کا پھل ہیں جو اب تک ٦٣ سال سے اس کا گُن گا رہے ہیں اور آج کا پاکستان ان کی جمہوریت کی بہترین مثال ہے۔اصل جمہوریت تو اس نظام حکومت خلافت میں ہوتی ہے جس میں خلیفہ کے تقرر کے لیے  لوگوں کوپہلے تولا جاتا ہے پھر گنا جاتاہے۔ جب تک ہم اس نظام حکومت خلافت کوقائم نہیں کرتے ہم اسی طرح بھٹکتے رہیں گےاورنئی نئی شکلوں میں ظالم پیدا ہوتے رہیں گے۔

    اب ہم نے اس نظام کی شروعات کہاں سے کرنی ہے؟یقیناًاپنے گھر اور اپنے رشتے داروں کو اسکا علم دے کر، کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:۔  اپنے قریب ترین رشتے داروں کوڈراؤ(سورہ الشعراء)۔

    رشتے دار گھروالے ہوتے ہیں  اور ہمارا گھر یہ پاک سر زمین (پاکستان)ہےبے شک سب سے پہلے ہمیں اسی ریاست پاکستان سے اس نظام کی شروعات کرنی ہے کیونکہ وقت کا تکازہ بھی یہ ہے کیونکہ اللہ نے ہمیں تمام مسلم دنیامیں ایٹمی طاقت سے نوازاہ ہے تاکہ ہم بلاخوف کفاردین اسلام کے نظام باطل سے ٹکر لے سکیں  اور اللہ کے اس دین برحق نظام کو دنیا کے کونے کونے میں قائم کرنے کی ابتداء کرسکیں ۔

    مذہب اسلام اور دین اسلام میں فرق ہےاسلامی مسلقوں کو مذہب اسلام اور اسلامی نظام حکومت خلافت کو دین اسلام کہا جاتا ہے اور اللہ تعالیٰ قرآن پاک میں فرماتا ہے دین اسلام کے لیے اللہ کی رسی کومضبوطی کو تھامے رکھو۔چنانچہ اس دین اسلام کے لیے متحد ہو جاؤ ،ہماری یکجہتی میں ہی ہماری بقاء ہےیہ لاسانی وخاندانی ومذہبی تفرقات میں پڑکر اپنے  آپ کو شیاطین کاشکار نہ بنائیں!۔ شیطان مردود نے انسانیت کو تباہ برباد کرنے کی قسم کھائی تھی اورآج تک وہ اور اسکے چیلےیہی کام کر رہے ہیں۔اس لیے اللہ کے لیے انسان بنیں اوراللہ کی انسانیت سے پیار کری،مطلب دین اسلام کے ذریعے انسانیت والےجذبات و احساسات دوبارہ سے پیداکرنے کی  کوشش (جہاد)کریں۔

    دودھ دینے والی گائیں اورانڈے دینے والی مرغی ہم اس وقت تک ذبح نہیں کرتے جب تک وہ دودھ اور انڈے دیتی رہتی ہیں اسی طرح اللہ کی وہ مخلوق جو اسکا کام نہیں کر رہی بلکہ صرف اپنی ذات میں ہی گم ہےاللہ کے لیے وہ کسی کام کی نہیں۔ وہ ذاتی عبادات کے ذریعے جنت تو حاصل کر لے گا مگر اللہ اور رسول اللہ ﷺکی محبت(شاید) کبھی حاصل نہیں کر سکتے ۔

اسلیے جاگو پاکستاں جاگو!اس سے پہلے کہ دیر ہو جائے۔

    حال ہی کا سیلاب جس نے آدھے پاکستا ن کو ڈبو دیا اور اس سے پہلے کے ذلزلے اللہ کا عذاب نہیں تو اور کیا ہے اب توجاگ جاؤ! اس نیند سے جس میں تم ٦٣ سال سے سوئے ہوئے ہوکیا اس وقت جاگو جب سر سے پانی گزر جائے گا۔

  اب تو جاگ جاؤ ،اپنے لیے جاگ جاؤ اگر نہیں جاگنا اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم  کے لیے۔ نہیں بننا اللہ کا تو نہ بن اپنا تو بن

    اب تک اللہ نے تمھیں سیلاب اور زلزلوں سے محفوظ رکھا ہوا ہے اس مہنگائی میں بھی اللہ تمھیں کھانےکودیتاہےبھوکے تو نہیں سوتے،اللہ نہ کرے اللہ نہ کرےکہ اللہ کے عذاب کا کوڑا تم پر بھی برس پڑے اسلیے جاگو بھائیوں بہنوں جاگو !اور جگا ؤان لوگوں کو بھی جو کسی نہایت ضروری کام سے سو رہے ہیں یاسلادیے گئے ہیں۔

  اورپھرسےجیو اُس مقصد کے لیے جس مقصد کے لیے تم اس دنیا میں آئے ہو،یعنی جیواللہ اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے غلام بن کر،عالم دین اسلام ،غیرت مند ،جاں باز،اقبال کاشاھین ، رحمدل،سخی اورسادگی  پسندبن کر۔

ناکہ پھر سے جیو (اس جملے کو بولنے والے اس چینل اور دیگر اس جیسے چینلوں کی طرح)دوبارہ شیاطین کا غلام بن کر،بےعلم ،بےغیرت ،حڈحرام(آرام پسند)،خودغرض وخودفروش ،بےرحم ،لالچی اورعیاش ہو کے۔


جاگو پاکستاں جاگو!اس سے پہلے کہ دیر ہو جائے
آخر میں میں یہ کہوں گا کہ آپ اس پیغام کو محض اپنی معلومات میں اضافےکے لیے نہ پڑھیے ۔اپنی زندگی کو بدلنے کی کوشش
کیجئے!دین کی طرف اصلاح نفس اور جہاد بالسیف کی طرف قدم بہ قدم بڑھیے!دین کے لیے جینے اور اسی کے لیے مرمٹنے کا جذبہ پیدا کیجئے!اورگھروں سے نکلیےاور قدم بڑھائے ان لوگوں کے ساتھ جو حضرت محمدکےنظام خلافت کے لیےپُرامن کوششیں کررہے ہیں۔ اس پیغام کوپڑھ کر اپنے اِن بکس میں رکھنے کی بجائے کسی اور رشتے دار اوردوست سےشیئر کیجیےاور اس کے پرنٹ نکال کےلوگوں میں بانٹیں ۔شاید آپ کی یہ کوشش کسی کی زندگی بدلنے کی بنیاد بن جائے۔

میں اس کا م پر تم سے کسی اجر کا طالب نہیں ہوں میرا اجر تو رب العالمین کے ذمےہے۔سورةالشعراء(٢٦:١٨٠)۔

والسلام

محمدعدنان اعوان
Sent to PCF by Don Kiluminati

پاکستان  سائبر  فورس - Pakistan Cyber Force

No comments:

Post a Comment